نہ جانے کن اداؤں سے لبھا لیا گیا مجھے |
نہ جانے کن اداؤں سے لبھا لیا گیا مجھے Posted: 30 Mar 2011 07:52 AM PDT نہ جانے کن اداؤں سے لبھا لیا گیا مجھے قتیل میرے سامنے چُرا لیا گیا مجھے کبھی جو ان کے جشن میں سیاہیاں بکھر گئیں تو روشنی کے واسطے جلا لیا گیا مجھے براہِ راست رابطہ نہ مجھ سے تھا قبول انہیں لکھوا کے خط رقیب سے بلا لیا گیا مجھے جب ان کی دید کے لیے قطار میں کھڑا تھا میں قطار سے نہ جانے کیوں ہٹا لیا گیا مجھے میں روندنے کی چیز تھا کسی کے پاؤں سے مگر کبھی کبھی تو زلف میں سجا لیا گیا مجھے سوال تھا وفا ہے کیا جواب تھا کہ زندگی قتیل پیار سے گلے لگا لیا گیا مجھے |
You are subscribed to email updates from اردو شاعری To stop receiving these emails, you may unsubscribe now. | Email delivery powered by Google |
Google Inc., 20 West Kinzie, Chicago IL USA 60610 |
Comments